170 دنوں سے بھوک ہڑتال کرنے والے فلسطینی قیدی نے اس بات پر زور دیا کہ اگر میرا گوشت اور جلد بھی پگھل جائے، میں انتظامی حراست کو قبول نہیں کروں گا۔
العواوده کے اہل خانہ کے ذریعے ہسپتال میں شائع ہونے والے ایک آڈیو فائل میں، فلسطینی قیدی نے کہا کہ یہ جسم جس میں صرف جلد اور ہڈیاں باقی ہیں ، فلسطینی قوم کی کمزوری کا مظہر نہیں، بلکہ یہ قابضین جو دعوے کرتے ہیں کہ اس کا ملک ایک چھوٹا سا جمہوری ملک ہے ، کے حقیقی چہرے کا مظہر ہے جبکہ یہاں کسی الزام کے بغیر ایک قیدی ہے جو اپنے گوشت اور خون سے من مانی انتظامی حراست کے خلاف مزاحمت کر رہا ہے۔
انہوں نے مزید بتایا کہ فلسطین ایک خودمختار ملک ہوگا اگر چہ اس آزادی کی قیمت بہت زیادہ ہوئے۔
مرکزاطلاعات فلسطین نے جمعرات کو خلیل عواد کی صورت حال کے بارے میں لکھاکہ یہ فلسطینی قیدی انتہائی خطرناک حالت میں ہے اور اس وقت مقبوضہ علاقوں کے ایک اسرائیلی اسپتال میں ہے۔
مرکز اطلاعات فلسطین کے مطابق خلیل العواودہ نے کچھ مہینے پہلے اسرائیلی عدالت کی طرف سے اس وعدے پر نظر بندی ختم کر دی جائے گی،اپنی بھوک ہڑتال 111ویں دن معطل کر دی تھی بھوک ہڑتال ختم کرنے کے فورا بعد ہی العواودہ کی نظر بندی مدت میں چار ماہ کا اضافہ کر دیا تھا۔ اس کے بعد انہوں نے بھوک ہڑتال شروع کر دی تھی۔
العواودہ چار بچوں کے باپ ہیں اور دسمبر 2021 سے نظربندی بھگت رہے ہیں، وہ اس سے پہلے بھی 12 سال تک اسرائیلی جیلوں میں رہ چکے ہیں۔ان بارہ برسوں میں پانچ سال نظر بندی کے بھی شامل ہیں۔ ایسی طویل نظر بندی بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہے۔
ہمیں اس ٹوئٹر لینک پر فالو کیجئے @IRNA_Urdu
آپ کا تبصرہ